
ڈاکٹر منموہن سنگھ کا سیاسی وقار اور سیکولر اقدار ناقابل فراموش:حضرت امیر شریعت
مونگیر 27دسمبر2024(پریس ریلیز): سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتقال پر امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر نے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا۔ حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم نے فرمایا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ ایک مدبر سیاستدان، ماہر اقتصادیات، اور ملک کی سیکولر اقدار کے حامی اور اس کی بقا کے لیے کوشاں تھے۔ ان کی وفات سے ملک ایک عظیم سیاست داں سے محروم ہوگیا ہے، جنہوں نے بھارت کی ترقی، سالمیت اور معاشی استحکام میں نمایاں کردار ادا کیا۔
حضرت امیر شریعت نے اپنے والد مفکر اسلام امیر شریعت سابع حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ کے ساتھ پیش آئے ایک اہم واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی سیاسی بصیرت اور مذہبی آزادی کے احترام کی مثال ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں، جس میں ایک مسلمان طالب علم کو داڑھی نہ کٹوانے پر اسکول سے نکال دیا گیا تھا اور عدالت کے ایک جج کی جانب سے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے تبصرے نے پوری قوم میں اضطراب پیدا کیا۔ اس وقت حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ نے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ملاقات کی اور سپریم کورٹ کی جانب سے داڑھی کے اس معاملہ کی سنگینی پر اُن کو مطلع کیا، اس پر ڈاکٹر منموہن سنگھ نے معاملے کی سنگینی کو سمجھا اور فوری اقدام کرتے ہوئے متعلقہ حکام سے رابطہ کیا، جس کے نتیجے میں انصاف کی بحالی ممکن ہوئی۔ یہ ان کی حساسیت، انصاف پسندی اور تمام مذاہب کے جذبات کے احترام کا مظہر ہے۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں ملک کے لیے اور بالخصوص اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے، جو یقیناً قابل ستائش ہیں۔ مثال کے طور پر
سچر کمیٹی کی تشکیل (2005): وزیر اعظم منموہن سنگھ نے مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی حالت کا جائزہ لینے کے لیے جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی۔ اس رپورٹ نے مسلمانوں کی پسماندگی کو اجاگر کیا اور ان کی ترقی کے لیے متعدد سفارشات پیش کیں۔
اسی طرح تعلیمی وظائف اور اسکیمیں: منموہن سنگھ کی حکومت نے اقلیتی طلباء کے لیے تعلیمی وظائف اور اسکیموں کا آغاز کیا، جن کا مقصد ان کی تعلیمی ترقی کو فروغ دینا تھا۔ ان اقدامات کے نتیجے میں اقلیتی طلباء کی تعلیمی شرکت میں اضافہ ہوا۔
معاشی اصلاحات: 1991ء میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے منموہن سنگھ نے اقتصادی اصلاحات کی بنیاد رکھی، جنہوں نے بھارت کو ادائیگیوں کے شدید بحران سے نکالا اور معیشت کو آزاد کیا۔ ان اصلاحات نے ملک کی معیشت کو عالمی سطح پر مستحکم کیا اور تمام شہریوں کے لیے معاشی مواقع پیدا کیے۔
سب سے بڑھ کر ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت نے اقلیتوں کے لیے آئینی حقوق کے تحفظ کو مضبوط کرنے کے لیے نیشنل مائنارٹیز ڈیولپمنٹ اینڈ فنانس کارپوریشن (NMDFC) کے بجٹ میں اضافہ کیا۔ اس کے ذریعے اقلیتوں کو بلا سود قرضے فراہم کیے گئے تاکہ وہ اپنے کاروبار شروع کر سکیں اور خود کفیل بن سکیں۔ اس اقدام سے اقلیتی طبقے میں اقتصادی آزادی کو فروغ ملا۔
اس کے علاوہ تعلیم کے شعبے میں، ڈاکٹر منموہن سنگھ نے مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو مضبوط کیا، جس کے تحت اقلیتی طلباء کے لیے پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اسکیمز متعارف کرائی گئیں۔ ان اسکالرشپ پروگرام سے لاکھوں اقلیتی طلباء کو اسکول اور کالج کی فیس میں رعایت دی گئی، جس سے تعلیمی اداروں تک ان کی رسائی ممکن ہوئی اور ان کی تعلیمی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا۔
ان اقدامات کے ذریعے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اقلیتوں کی ترقی اور ملک کی مجموعی اقتصادی بہتری میں اہم کردار ادا کیا۔
حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم نے مزید فرمایا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں بھارت نے اقتصادی ترقی کی نئی راہیں حاصل کیں، خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت، اور صنعتی شعبوں میں بے مثال ترقی ہوئی۔ ان کی پالیسیوں نے بھارت کو عالمی اقتصادی منظر نامے میں ایک مضبوط مقام دلایا۔
آخر میں، حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتقال پر ان کے اہل خانہ اور تمام محب وطن ہندوستانیوں کے لیے صبر اور حوصلے کی دعا کی۔ انہوں نے فرمایا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی خدمات، ان کی سیاسی بصیرت، اور قومی اتحاد و سالمیت کے لیے ان کی کوششیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔حضرت امیر شریعت نے اس بات پر زور دیا کہ ان کے طرزِ قیادت سے سبق لیتے ہوئے ملک کے تمام شہریوں کو ترقی، قومی یکجہتی، اور سماجی انصاف کے لیے کام کرنا چاہیے تاکہ ملک میں امن و امان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول مزید مضبوط ہو۔