
وقف ترمیمی بل 2024 کی منظوری کی سفارش جمہوری و دستوری اقدار کے منافی
وقف ترمیمی بل 2024 کے لیے تشکیل شدہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کا تمام مسلم تنظیموں، اداروں اور سرکردہ شخصیات کی طرف سے پیش کردہ خدشات، تجاویز و آراء کو یکثر نظر انداز کر کے وقف ترمیمی بل 2024 کی منظوری کی سفارش کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔ جے پی سی کا یہ اقدام انتہائی غیر معقول اور دستور و دستوری اقدار کے منافی ہے۔یہ مشترکہ بیان امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ۔جماعت اسلامی۔جمیعت علماء ہند الف۔ جمیعت علماء ہند میم۔ جماعت اہل حدیث۔ مجلس علماء،خطباء، اہل تشع اور آل انڈیا مومن کانفرنس نے جاری کی۔
ان جماعتوں نے مشترکہ طور پر اتفاق کیا کہ قف کا مسئلہ بنیادی طور پر مسلمانوں سے متعلق ہے اور انہوں نے اس سلسلے میں بے مثال بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے جے پی سی کے مطالبے پر تقریباً 4 کروڑ ای میل بھیج کر اپنی رائے پیش کی اور وقف ترمیمی بل کو یکسر مسترد کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ تمام سرکردہ ملی تنظیموں، تمام مکاتب فکر اور تقریباً تمام سیکولر پارٹیز کے اقلتی نمائندگان نے جے پی سی سے ملاقات کر کے بھی بل کی تمام شقوں پر مدلل و مفصل گفتگو کی، اور تحریری شکل میں بھی جے پی سی کو سینکڑوں تفصیلی دستاویز پیش کیےگئے اور واضح طور پر جے پی سی کو بتایا گیا کہ یہ بل مسلمانوں کو کیوں نا منظور ہے اور اس سے وقف املاک کو کیا کیا خطرات درپیش ہیں۔
جے پی سی نے اسٹیک ہولڈرس کی رائے لینے کے لیے شمال مشرقی ریاست آسام، اڈیشہ، بہار، مغربی بنگال اور لکھنؤ وغیرہ کا دورہ کیا جہاں ملاقات کرنے والے سرکردہ تنظیموں اور شخصیات نے مخلتف گروپز میں بل کی الگ الگ شقوں پر مدلل گفتگو کرتے ہوئے 98 فیصد نے بل کو یسکر مسترد کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان تمام کے باوجود بھی جے پی سی نے اپنی حتمی سفارش میں تمام مسلم تنظیموں، تمام مکاتب فکر کے ذمہ داران میں سے کسی کی ایک بات کو بھی جگہ نہیں دی بلکہ اس کے برعکس حکمران اتحاد کی طرف سے پیش کردہ تجاویز کو منظور کر لیا اور اس کے ساتھ وقف ترمیمی بل 2024 کی منظوری کی سفارش کر دی۔ یہ انتہائی تکلیف دہ اور تشویش ناک قدم ہے۔ ساتھ ہی جمہوری اور دستوری اقدار کے خلاف و منافی ہے۔ حد تو یہ ہوئی کہ جے پی سی میں شامل اپوزیشن کے ممبران کی کسی ایک تجویز کو بھی قبول نہیں کیا گیا اور فائنل میٹنگ اس جلد بازی کے ساتھ آناً فاناً کی گئی جس سے صاف صاف یہ تاثر ملتا ہے کہ جے پی سی نے محض فارملٹی کے طور پر رسماً اپنی ذمہ داری نبھائی اور کام وہی کیا جو اسے حکومت کی طرف سے لکھ کر دیا گیا تھا یا پہلے سے طے شدہ تھا۔
یہ صورتحال ملک کی سب سے بڑی اقلیت بلکہ ملک کی جمہوری روایات، جذبۂ اتحاد،رواداری اور دستور ہند کے خلاف ہے، اور اس جیسے مخلتف چیلنجز کے لیے ہماری جد وجہد جاری رہے گی۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشادِ حق ہے (وأن ليس للإنسان إلا ماسعى) انسان کو اس کی کوششوں کا اجر اور بدلہ ملے گا۔
بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کی تمام ملی تنظیموں،مخلتف مکاتب فکر کے ذمہ داران اور مختلف سیاسی پارٹیز کی اقلیتی نمائندگی نے یہ بات صاف صاف کہی کہ مسلمان اپنے شرعی معاملات میں کسی بھی دخل اندازی کو ہرگز منظور نہیں کریں گے۔ وقف سمیت پرسنل لاء کے متعلق کوئی بھی معاملہ ہو وہ شریعت اسلامیہ کا جز و لاینفک ہے، مسلمان کسی بھی حال میں شریعت سے دستبردار نہیں ہو سکتے ہیں اور اس میں کسی ادنیٰ تبدیلی کو بھی گوارہ نہیں کریں گے۔
ملت اسلامیہ سے عرض ہے کہ اس وقت عالمی پیمانہ پر مسلمان متعدد مخالف حالات اور چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اس طرح کی پیش آمدہ حالات سے دل برداشتہ نہ ہوں اور نہ مایوس ہوں اس لیے کہ مایوسی کفر ہے۔ ہمیں ہمت اور حوصلہ کے ساتھ ان حالات کا سامنا کرنا ہے اور پوری بیداری کے ساتھ اپنی جدو جہد جاری رکھنی ہے۔کوششوں کی ناکامی سے حوصلہ کمزور ضرور ہوتا ہے لیکن ہمیں یہ نہیں فراموش کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کوششوں پر ہی اجر عطا فرماتے ہیں اور ہم اسی جدوجہد کے مکلف ہیں۔
بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کی تمام ملی تنظیمیں ، سجادگان اور مخلتف مکاتب فکر کے ذمہ داران اتراکھنڈ میں حکومت کے ذریعے نافذ کیے گئے یونیفارم سول کورڈ کی بھی مکمل مخالفت کرتے ہیں اور اس فیصلے کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور حکومت سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کی خلاف دستور اقدامات کو واپس لے اور پرسنل لاء کو نافذ کرے۔ حیرانی اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اتراکھنڈ یونیفارم سول کورڈ میں دستور کے حوالے کے ساتھ خود کچھ ایسی جماعتوں کو مستثنی رکھا گیا ہے جن کو دستور ہی ہندو کہتا ہے؛ تو پھر مسلمانوں کو کیوں اس سے مستثنی نہیں کیا جا سکتا ہے؟
ہم مسلمان یہ بات تاکیدی طور پر واضح کرتے ہیں کہ مسلمان کسی بھی صورت میں اپنے دین اور شریعت سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ وہ اپنے دین و شریعت کے ساتھ ہی جییں گے اور اسی کے ساتھ مریں گے۔