
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ناظر عام حضرت مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کی خبر پوری ملت اسلامیہ کے اوپر بجلی بن کر گری اور ایک مرتبہ پھر ہندوستانی مسلمانوں کو ناقابل تلافی علمی دینی اور روحانی خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا قدیم تعلق جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر اور وہاں کے بزرگوں سے رہا ہے، خاص طور پرمفکراسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے خلف رشید مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب دامت برکاتہم امیر شریعت بہار اڑیسہ جھارکھنڈ و مغربی بنگال سے بڑے گہرے مراسم اور روابط تھے اور وہ ذاتی طورپر بھی حضرت سے بہت قریب تھے۔
16/ جنوری ، جمعرات کے دن جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر میں باقاعدہ ان کے لیے دعائیہ مجلس اور تعزیتی اجلاس کا اہتمام کیا گیا جس میں جامعہ رحمانی کے تمام اساتذہ اور طلباء نے شرکت کی، متعدد اساتذہ نے انہیں خراج تحسین پیش کیا اور ان کی خوبیوں ،کارناموں اور خدمات کا تذکرہ کیا ۔ جامعہ رحمانی کے شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد اظہر صاحب مظاہری کی دعا پر اس مجلس کا اختتام ہوا۔
حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کے حکم سے فورا ایک نمائندہ وفد تعزیت کے لیے حضرت مولانا رحمۃاللہ علیہ کے آبائی وطن رائے بریلی دائرہ شاہ علم اللہ تکیہ کلاں کے لیے روانہ ہوگیا، چونکہ بیگو سرائے تکیہ کے جناب علاء الدین رحمانی صاحب برادر محترم جناب ماسٹر غیاث الدین رحمانی صاحب کا بھی گذشتہ ہفتہ انتقال ہوگیا تھا، جو خانقاہ رحمانی کے مخلصین ومتوسلین میں سے تھے اور ان کا پورا خاندان یہاں سے ارادت وعقیدت کی نسبت رکھتا ہے ، ان کے لیے جمعہ کی شب ایصال ثواب کی دعائیہ مجلس کا انعقاد پہلے سے طے تھا، جس میں حضرت مولانا جمیل احمد صاحب مظاہری ناظم تعلیمات جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کے ہمراہ راقم الحروف کو بھی شریک ہونا تھا، اسی مناسبت سے امارت شریعہ کے رکن عاملہ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیسی، خانقاہ رحمانی کے معتمد خاص اورعلاقے کے روح رواں جناب ماسٹر انوار صاحب رحمانی کی قیادت اور نظامت میں محسن انسانیت کانفرنس کا بھی انعقاد ہونا تھا، اس لیے بیگو سرائے تکیہ ہوتے ہوۓ وفد رائے بریلی تکیہ کلاں حاضر ہوا، جس میں جامعہ رحمانی کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا جمیل احمد صاحب مظاہری،اور راقم الحروف کے علاوہ نائب ناظم تعلیمات حضرت مولانا محمد صالحین صاحب ندوی، استاد حدیث حضرت مولانا سیف الرحمن صاحب ندوی بھی شامل تھے۔
راے بریلی تکیہ کے حسنی خانوادے کی جو دینی ، علمی ادبی اور روحانی خدمات اور قربانیاں ہیں وہ بلا شبہ ملت اسلامیہ پر احسان عظیم ہیں ، اسی لیے ملک کے تقریبا تمام اہم اداروں کے نمائندہ وفود تعزیت کے لیے حاضر ہوئے اور تا ہنوز اس کا سلسلہ جاری ہے ۔
حضرت مولانا جعفر مسعود حسنی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر مبارک اسی احاطے میں واقع ہے جس میں حضرت مولانا محمد رابع حسنی، حضرت مولانا واضح رشید حسنی، حضرت مولانا محمود حسن حسنی، حضرت مولانا حمزہ حسنی، حضرت مولانا عبداللہ حسنی وغیرہ اکابر رحمہم کی قبر مبارک ہے، پہلے وہاں حاضری ہوئی ، ایصال ثواب اور دعاء کے بعد ایک دوسرے احاطے میں جہاں مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک ہے وہاں بھی دعا اور ایصال ثواب کے لیے حاضری ہوئی۔
عصر کے بعد ندوۃ العلماء کے ناظم اعلی اور اس خانوادے کے سرپرست حضرت مولانا بلال عبد الحی حسنی ندوی دامت برکاتہم سے ملاقات ہوئی ، مفکر ملت حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کی طرف سے تمام اہل خانہ کے لیے تعزیت مسنونہ پیش کی گئی، حضرت مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے تعلق سے حضرت امیر شریعت اور ان کے خانوادے سے گھریلو روابط اور عقیدت ومحبت کا تذکرہ ہوا، حضرت مولانا مرحوم کی تدریسی ، تقریری، تحریری اور انتظامی خدمات اور کارناموں کا بھی ذکر آیا۔ حضرت مولانا بلال حسنی ندوی دامت برکاتہم نے دونوں خاندانوں کے درمیان قدیم مضبوط گھریلو خاندانی مراسم کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کے تئین نیک جذبات اور خواہشات کا اظہار فرمایا۔ پھر وہاں سے مغرب بعد لکھنو کے لیے واپسی ہوئی۔
اگلے دن لکھنو کی معروف درسگاہ مدرسہ عالیہ عرفانیہ میں حاضری ہوئی، وہاں کے مہتمم جناب قاری امتیاز احمد پر تاب گڑھی سے بڑی اچھی اور لمبی ملاقات رہی، انہوں نے انتہائی خلوص کے ساتھ پرتپاک استقبال کیا، مفکر ملت حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کی طرف سے ان کے اور ان کے والد محترم حضرت قاری مشتاق احمد صاحب پرتاب گڑھی کے تئیں نیک جذبات اور خیالات کی ترجمانی کی گئی، اوردینی اداروں کے درمیان روابط کے استحکام کی ضرورت و اہمیت پر گفتگو ہوئی۔
رئیس القراء حضرت قاری مشتاق احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ پرپچھلے سال سیمینار منعقد ہوا تھا، اس موقع پر حضرت امیر شریعت بھی مدعو تھے، حضرت کی شرکت تو نہیں ہوسکی، مگر آپ کا پیغام موصول ہوا، جواب سیمینار کے مقالات کا مجموعہ نقوش مشتاق کی زینت ہے۔ ماشاءاللہ جناب قاری صاحب اپنے والد محترم کے اچھے جانشین اور عکس جمیل ہیں، لکھنوی نفاست اور عمدہ ضیافت کا بڑا خوشگوار مشاہدہ اور تجربہ ہوا، چلتے وقت حضرت امیر شریعت اور شرکاء وفد کے لیے، اپنے دادا عارف باللہ حضرت مولانا شاہ محمد احمد پرتاب گڑھی نور اللہ مرقدہ کا عارفانہ و عاشقانہ اشعار کا مجموعہ اور حضرت قاری مشتاق احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و خدمات پر مقالات و مضامین کا مجموعہ نقوش مشتاق کا گراں قدر علمی تحفہ عنایت فرمایا۔
پھر وہاں سے جامعہ رحمانی کے تربیت یافتہ جناب حافظ ابوالقاسم صاحب رحمانی کے مدرسہ دار السلام میں حاضری ہوئی، جن کے ایک صاحبزادے مولانا نعمت اللہ ندوی صاحب دارالعلوم ندوۃ العلماء میں عربی ادب کے استاذ ہیں ، وہیں ظہرانہ کی دعوت تھی، وہاں سے جامعہ رحمانی کے بعض عزیز طلباء سے ملاقات کے لیے معہد ندوۃ العلماءحاضری ہوئی، جہاں ہمارے عزیزوں نے والہانہ استقبال کیا، ان کی تعلیمی سرگرمیوں کو جان کردلی مسرت ہوئی۔اللہ تعالیٰ انہیں علم نافع عطا فرماۓ اور اپنے حفظ وامان میں رکھے۔
اگلے دن خانقاہ رحمانی کے ایک اور ارادت مند مخلص مکرم جناب الحاج محمد پرویز صاحب کانپور کے یہاں تعزیت ہی کے لیے حاضری ہوئی، گذشتہ ہفتے ان کے بہنوئی جناب ننھے بابو مرحوم جو دارالعلوم ندوۃ العلماء کے فیض یافتہ ، حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دست گرفتہ اور خانقاہ رحمانی کے حاضرباش عقیدت مندوں میں سے تھے ان کا انتقال ہوگیا تھا، عشاء بعد ان کے اہل خانہ سے تعزیت کیلئے ان کے دولت خانے پرجانا ہوا، جہاں ایصال ثواب اور دعا کی مجلس ہوئی، ساتھ ہی موقعہ کی مناسبت سے حضرت مولانا جمیل احمد صاحب مظاہری نے اہل خانہ کو صبر جمیل کی تلقین فرمائی ۔ اس طرح چار روز کے بعد یہ تعزیتی وفد الحمدللہ بسلامت جامعہ رحمانی واپس آگیا۔